Farida

Add To collaction

31-Mar-2022 لیکھنی کی کہانی -




Title: مکافات عمل
Story: 
کمرے کے ایک کونے میں دو ننھی معصوم کلیاں گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی اور پورا کمرا دونوں کی سسکیوں سے گونج رہا تھا کمرے کے باہر ہی ایک عورت شدید غصے کی حالت میں کہہ رہی تھی " اب کمرے سے باہر نکل کہ دکھاؤں ذرا اس سے بھی زیادہ ماروں گی اپنی ماں تو مر گئی اور تم دونوں کو چھوڑ گئی میری زندگی عذاب بنانے کے لیے چپ کر جاؤں دونوں ورنہ اس چھری سے دونوں کی زبانیں کاٹ دوں گی" ڈر کے مارے بڑی بچی نے دوسری بچی جو کہ اس سے تقریبا دو سال چھوٹی تھی اس کے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھ دیا اور اسے چپ کروانے لگی
چارسدہ کے اس چھوٹے سے گھر میں میں رہنے والی سات سالہ اقراء اور نو سالہ رمشاء کی سگی ماں فرزانہ کو اس دنیا سے گئے آٹھ ماہ ہو چکے تھے اور ماں کی وفات کے بعد ان دونوں نے کوئی ایک دن بھی آرام و سکون سے نہیں گزارا تھا اقراء اور رمشاء کا والد ظفر ایک مزدور تھا جو سارا دن محنت مزدوری کر کہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا بیوی کے مرنے کے بعد وہ کام پہ چلا جاتا اور بیٹیاں سارا دن اپنی ماں کو یاد کرتی گھر میں اکیلے رہتی ان کے گھر کے ساتھ گھر میں ظفر کی چاچی رہتی تھی دونوں بچیوں کی حالت کو دیکھتے ہوۓ اس نے ظفر کو دوسری شادی کا مشورہ دیا جسے اس نے فورا مان بھی لیا رشیدہ چاچی نے ہی اس کے لیے نسرین کو پسند کیا جس کے والدین حیات نہیں تھے اپنے ایک بھائی اور بھابھی کے ساتھ رہتی تھی ایک ہفتے کے اندر اندر ہی سادگی سے نکاح ہوا
اقراء اور رمشاء بہت خوش تھی کہ ان کی نئی امی آگئی ہے اب وہ سارا سارا دن گھر میں اکیلے نہیں رہے گیں اب انہیں کھانا بھی وقت پہ ملے گا بھوکا نہیں رہنا پڑے گا لیکن ان دونوں معصوم بچیوں کی یہ خوشی صرف چند دن ہی رہی کچھ دن بعد ہی اس نے دونوں بچیوں کو چھوٹی چھوٹی سے باتوں پہ مارنا شروع کر دیا سارا سارا دن دونوں بچیاں اس کے ڈر سے گھر سے باہر رہتی آج بھی دونوں گھر سے باہر تھی جب سات سالہ اقراء نے رمشاء سے کہا " آپی ہماری اپنی امی واپس کب آۓ گی مجھے یہ نئی امی نہیں اچھی لگتی جب وہ بالوں سے پکڑ کر مارتی ہے تو بہت درد ہوتا ہے " جس پر نو سالہ رمشاء نے کہا" اقراء ہماری امی اللہ جی کے پاس چلی گئی ہے ہم اللہ جی سے دعا کرتے ہیں کے ہماری امی کو واپس بھیج دیں " وہ دونوں معصوم بچیاں اسی طرح کبھی اللہ سے دعائیں مانگتی تو کبھی اپنی نئی امی کی شکایت کرتی کہ ہماری امی کو واپس بھیج دیں نئی امی بہت مارتی ہے اسی طرح دن گزرتے گئے لیکن نسرین کے دل میں ان دو بچیوں کے لیے نرم گوشہ پیدا نا ہوئی

اتوار کا دن تھا اقراء اور رمشاء صبح جلدی اٹھ گئی تھی جبکہ نسرین تو ویسے بھی دیر سے ہی اٹھتی اقراء کو بھوک لگی تھی دونوں بہنوں نے سوچا کہ اگر ماں کو جگایا تو پھر مار پڑے گی باپ صبح سویرے ہی کام پہ جا چکا تھا ناشتہ ظفر باہر ہی کرتا تھا اس لیے رمشاء اوراقراء خود ہی کچن میں ناشتہ بنانے آگئی دونوں بچیاں ناشتہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں اقراء کے ہاتھ سے جگ گر کہ ٹوٹ گیا جو نسرین دو دن پہلے لے کہ آئی تھی کانچ ٹوٹنے کی آواز جب نسرین کے کانوں میں پڑی تو وہ بھی کچن میں پہنچ گئی جہاں وہ دونوں بہنیں ڈری سہمی سی کھڑی تھی کیونکہ ان کو پتا تھا کہ اب ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے " یہ کیا کر دیا تم دونوں نے میرا نیا جگ توڑ دیا یہ تمہاری ماں کا نہیں تھا میں خود لے کے آئی تھی " کہتے ساتھ ہی نسرین نے اقراء کے چہرے پہ تھپڑ برسانے شروع کر دئیے " امی کیا کر رہی ہے چھوڑیں امی غلطی سے ٹوٹ گیا چھوڑ دے اقراء کو مت مارے چھوٹی ہے وہ ابھی" کچن بڑی بہن کی آوازوں سے گونج اٹھا اس وقت نسرین یہ سوچ کہ اقراء کو مار رہی تھی کہ کون سا کوئی دیکھ رہا ہے مگر وہ بھول گئی تھی کہ ایک ذات ایسی بھی موجود ہے جو ہر وقت ہمیں دیکھتی ہے جس کی لاٹھی بے آواز ہے اس کی پکڑ سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا نسرین بھی بچنے والی نہیں تھی " آج میں ابو کو بتاؤ گی کہ آپ ہمیں مارتی ہیں کھانا بھی نہیں دیتی ہماری امی ایسی نہیں تھی بتاؤ گی میں آج ابو کو" یہ رمشاء تھی جو روتے ہوۓبول رہی تھی کہ شاید یہ ظالم عورت بس کر جاۓ لیکن اس بات سے اسے مزید غصہ آگیا " بتاؤ گی اپنے باپ کو ہاں کیا بتاؤ گی دوبارہ بولو ذرا۔ تم دونوں بہنوں کا ابھی علاج کرتی ہوں رکو " دونوں بہنوں کو بالوں سے پکڑ کر وہ کمرے میں لے گئ اور اندر سے دروازہ بند کر دیا رشیدہ چاچی کی دو پوتیاں جو کہ اقراء اور رمشاء کی سہیلیاں تھی اور روز چاروں ساتھ کھیلتی تھی وہ آج بھی ان دونوں کو بلانے آئی تھی مگر چیخوں کی آوازیں سن کے وہ دونوں رشیدہ چاچی کو بلوانے کے لیےواپس بھاگ گئی جب چاچی آئی اور دیکھا تو نسرین دونوں بچیوں کو چھری دکھا کہ بول رہی تھی "چپ کر جاؤ دونوں اب آواز آئی تو دونوں کی زبانیں کاٹ دوں گی اس چھری سے " کیا کر رہی ہو یہ خدا کا خوف نہیں ہے تمہیں بن ماں کی بچیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہو...... اندر کا منظر دیکھ کر الفاظ ان کے منہ میں ہی رہ گئے کمرے کے ایک کونے میں وہ دونوں بچیاں موجود تھی ڈری سہمی سی سر کے بال بے دردی سے کٹے ہوئے تھے

نیچے زمین پہ دونوں بچیوں کے بال بکھرے ہوئے تھے جو کچھ دیر پہلے ہی نسرین بے دردی سے کاٹ چکی تھی یہ منظر دیکھ کے رشیدہ چاچی کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا دونوں بچیوں کا سر بھی قینچی لگنے سے زخمی ہو چکا تھا جہاں سے خون نکل رہا تھا اس وقت رشیدہ چاچی کو اس سب کا ذمہ دار اپنا آپ لگا کیونکہ وہی نسرین کو لے اس گھر میں لائی تھی " شرم نہیں آتی تمہیں کیا تمہارے دل میں خدا کا خوف بلکل بھی نہیں تم خود بھی ایک عورت ہو کیسے کر سکتی ہو ان بن ماں کی بچیوں پہ ایسا ظلم تمہاری شادی میں نے ظفر سے کروائی یہ سوچ کر کہ تم ان بچیوں کو ماں کا پیار دو گی لیکن تم نے ان کی یہ حالت کر دی کیا تم یہ بھول چکی ہو کہ اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا تم سے اس سب کا بدلہ اللہ ہی لے گا آج ظفر کو آنے دو میں کرتی ہوں کوئی فیصلہ اب میری بچیاں مزید تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی" رشیدہ چاچی غصے سے بول رہی تھی" ٹھیک ہے کہہ دینا ظفر سے جو کہنا ہوا اب ایسی بھی کیا قیامت آگئی جو ان کو ہلکا سا مار لیا یا ڈانٹ دیا اگر یہ مجھے تنگ کرے گی اور میں انہیں کچھ کہوں تو کون سی قیامت آگئی" ہلکا سا یہ تمہیں ہلکا لگ رہا ہے ان بچیوں کے بال کاٹ دئیے سر زخمی کر دیا اور تم کہہ رہی ہو ہلکا سا ڈانٹ دیا اللہ ہی اس کا حساب لے گا تم سے اقراء رمشاء ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے بیٹا چلو دونوں میرے ساتھ" اور رشیدہ چاچی دونوں کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئی

شام کو ظفر کے گھر آتے ہی نسرین نے رونا دھونا شروع کر دیا " کیا میرا اتنا بھی حق نہیں ہے آپ کی بیٹیوں پہ جو ذرا سا ڈانٹنے پہ آپ کی چاچی نے مجھے میرے گھر میں ہی بے عزت کیا اور ان دنوں کو لے گئی یہاں سے " نسرین زور و شور سے رونے کا ڈرامہ کرنے میں مصروف تھی" تم رونا بند کرو میں ابھی ان دونوں کو واپس لے کہ آتا ہوں" کہتے ہی ظفر اٹھا اور رشیدہ چاچی کے گھر کی طرف چل پڑا- وہاں رشیدہ رشیدہ چاچی کے گھر اقراء کے دو چاچا لطیف اور عرفان آئے ہوۓ تھے جو دونوں بچیوں کی حالت دیکھ کہ کافی غمگین ہو گئے تھے رشیدہ چاچی نے اقراء اور رمشاء کے زخم صاف کئے اور اپنی پوتیوں کے صاف کپڑے دونوں بہنوں کو پہنا کر ان کے سر کو سکارف سے ڈھانپ دیا ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کے دروازے سے ظفر اندر داخل ہوا رشیدہ چاچی سے سلام دعا کے بعد انہوں نے اقراء اور رمشاء کو ساتھ چلنے کا کہا جس پر چاچی نے ان کو صبح کا سارا واقع بتایا اپنی آنکھوں سے اپنی بیٹیوں کی ایسی حالت دیکھنے کے بعد ظفر غصے سے پاگل ہوگیا اور فورا اٹھ کے اپنے گھر کی طرف چل پڑا رشیدہ چاچی ظفر کے دونوں بھائی اور بیٹیاں بھی ان کے پیچھے بھاگی اندر داخل ہوتے ہی ظفر غصے سے نسرین کی طرف بڑھا "کتنی جھوٹی اور مکار عورت ہو تم میری بیٹیوں کی یہ حالت کر کے اب خود مظلوم بننے کی کوشش کر رہی ہوں چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں" اس سے پہلے کہ ظفر نسرین پہ ہاتھ اٹھاتا رشیدہ اور ظفر کے دونوں بھائیوں نے آگے بڑھ کے اسے روکا بہر حال نسرین کو کسی قسم کا پچھتاوا نہیں تھا وہ ایک ہی بات کر رہی تھی ظفر سے کہ "میں تمھاری بیٹیوں کی نوکر نہیں ہوں مجھے الگ گھر لے کہ دو یا مجھے طلاق دو" لڑائی بہت بڑھ گئی تھی رشیدہ چاچی اور ظفر کے بھائی اس کا گھر برباد نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے لطیف اور عرفان نے فیصلہ کیا کہ ظفر دوسرا گھر نہیں لے سکتا اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے وہ تو محنت مزدوری کرتا تھا اس لیے انہوں نے ظفر کو منایا کہ اقراء اور عیشاء کو ہم لے جاتے ہیں یہ دونوں اب ہمارے ساتھ رہے گی بہت مشکل سے ہی سہی لیکن ظفر مان گیا اس طرح اقراء عرفان کے ساتھ اور رمشاء لطیف کے ساتھ ان کے گھر چلی گئی

وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گرتا چلا گیا پتہ ہی نہیں چلا اور نسرین کی شادی کو 8 سال گزر گئے اقراء اب 15 اور عشاء 17 سال کی ہو گئی تھی مگر نسرین کو اللہ نے اولاد کی خوشی نہیں دی جو دوسروں کی اولاد پہ ظلم کرتے ہیں ان کی خوشیاں نہیں دیکھ سکتے وہ خود بھی کبھی خوش نہیں رہ سکتے کسی بھی ڈاکٹر کا کوئی بتاتا تو نسرین وہاں علاج کے لیے پہنچ جاتی آٹھ سال کے لمبےکے عرصے بعد نسرین کو ڈاکٹر نے خوشخبری دی کہ وہ ماں بننے والی ہے اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی وہ ہر وقت سوچتی رہتی کہ میں اپنے بچے کو دنیا کی ہر آسائش دوں گی بڑے سے بڑے سکول میں پڑھے گا میرا بچہ ان دنوں اس نے کام کے لیے بھی ملازمہ رکھ لی تھی ظفر بھی بہت خوش تھا آخر وہ دن بھی پہنچ گیا جس کا نسرین کو بے صبری سے انتظار تھا ہسپتال میں بیڈ پہ پڑی وہ منتظر نگاہوں سے دروازے کو دیکھ رہی تھی کہ کب اس کے بچے کو اس کی گود میں دیا جائے گا اتنے میں دروازے سے ظفر اندر داخل ہوا جس کی گود میں مہرون کمبل میں لپٹا ایک بچہ تھا اس کے پیچے کچھ ڈاکٹرز بھی آرہے تھے نسرین نے ظفر کو دیکھتے ہی کہا" شکر ہے ظفر تم آگئے کہاں چلے گئے تھے مجھے میرا بچہ تو دکھاؤ" ظفر نے اس چھوٹے سے بچے کو نسرین کی گود میں دیا نسرین نے جیسے ہی بچے کے چہرے اور سر سے کمبل کو ہٹایا وہ لرز کر رہ گئی بچہ باقی تو ٹھیک تھا مگر اس کی کھوپڑی کی کھال نہیں تھی سر کے اندر موجود دماغ وغیرہ سب نظر آرہا تھا ظفر نے جلدی سے بچے کو واپس لیا اور کانپتی ہوئی نسرین کو سنبھالنے لگا جسکا چہرہ پیلا پڑ چکا تھا
آج دو ہفتے گزر چکے نسرین اور ظفر پہ وہ قیامت گزرے رات کے دو بج رہے تھے جب پیاس کی شدت سے نسرین کی آنکھ کھلی کچن میں پانی پیتے ہوۓاچانک اسے وہ سب یاد آیا جو وہ آٹھ سال پہلے اقراء اور رمشاء کے ساتھ کر چکی تھی اور اپنا ننھا سا بیٹا بھی۔ رات کے اس پہر کچن میں کھڑی نسرین کے کانوں میں مسلسل ان بچیوں کی آوازیں گونج رہی تھی " امی مت مارے اقراء کو امی چھوڑیں میرے بال نا کاٹے مت کرے امی صرف ایک دفعہ معاف کر دےاس کے بعد کبھی آپ کو تنگ نہیں کریں گے" شاید اپنی اولاد کو ایسی حالت میں دیکھنا ہی تھا جو آج نسرین ان معصوم بچیوں کے درد کو محسوس کر رہی تھی چیخ چیخ کر روتے ہوۓ وہ کچن میں ہی زمین پر بیٹھ کر اللہ سے معافیاں مانگنے لگی رونے کی آواز سن کر ظفر بھی بھاگتا ہوا کچن میں آیا " کیا ہوا نسرین کیوں رو رہی ہو بتاؤ مجھے ہوا کیا ہے" ظفر نے حواس باختہ ہو کے پوچھا " ظفر مجھے اقراء اور عیشاء کے پاس لے چلو خدا کے لیے مجھے ان کے پاس لے چلو میں ان سے معافی مانگنا چاہتی ہوں آج اپنی اس حالت کی ذمہ دار میں خود ہوں نا میں ان پہ ظلم کرتی نا آج میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا جب تک وہ مجھے معاف نہیں کرے گی اللہ بھی مجھے معاف نہیں کرے گا مجھے لے چلو ان کے پاس " زاروقطار روتے ہوئے نسرین نے ظفر سے کہا "ابھی بہت رات ہو چکی ہے میں کل صبح تمہیں ان کے پاس لے جاؤں گا " ظفر نے کہا اور اسے سہارا دیتے ہوئے کمرے میں لے آیا اگلے دن صبح سویرے ہی ظفر اور نسرین عرفان اور لطیف کے گھر روانہ ہوئے ۔ اقراء اور رمشاء اپنی چاچی کے ساتھ کچن میں ان کا ہاتھ بٹانے میں مصروف تھی جب باہر سے باتوں کی آوازیں آنے لگی " لگتا ہے کوئی آیا ہے چلو چل کہ دیکھتے ہیں " عرفان کی بیوی نے کہا اور وہ تینوں باہر آگئی باہر کا منظر دیکھ کر اقراء اور رمشاء کواپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرہا تھا جہاں لطیف کی بیوی نسرین سے سلام دعا کرنے میں مصروف تھی اقراء اور رمشاء نے بھی آگے بڑھ کر سلام کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن نسرین نے ان کا ہاتھ تھامنے کے بجائے دونوں کو گلے سے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی" مجھے معاف کر دو بیٹا میں تم دونوں سے معافی مانگنے آئی ہوں میں نے تم دونوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا اس کی سزا بھی مجھے مل چکی ہے مجھے معاف کر دو اور میرے ساتھ گھر چلو جب تک تم دونوں مجھے معاف نہیں کرو گی تب تک اللہ بھی مجھے معاف نہیں کرے گا" اقراء اور رمشاء نے نسرین کی طرف دیکھا جو بے حد کمزور نظر آرہی تھی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے موجود تھے وہ بہت بیمار نظر آرہی تھی دونوں بہنوں نے اسے معاف تو کردیا تھا مگر ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تھا اب واپس وہ دونوں اس گھر میں نہیں جانا چاہتی تھی اور اس گھرمیں وہ بے حد خوش بھی تھیں دو دن وہاں گزارنے کے بعد نسرین اور ظفر واپس آگئے آج ظفر کام پہ چلا گیا تھا جبکہ نسرین گھر میں بلکل بلکل اکیلی تھی آج پہلی بار اسے اس تنہائی سے خوف آرہا تھا مگر اب کچھ نہیں ہو ہوسکتا تھا یہی تنہائی اور اوراکیلا پن اس کا مقدر بن چکا تھا

   1
0 Comments